عمرانی تنقید
عمرانی تنقید سے مراد وہ تنقید ہے جو ادیبوں اور ادب پاروں کو ان کے معاشرتی پس منظر میں جانچتی ہے۔ ادیب آخر ایک معاشرے کا رکن ہے، اس کے مزاج، افتادِ طبع، طبیعت، عقائد و نظریات، فکر و احساس، اس کی نفسیاتی الجھنوں، اس کے مصائب اور محاسن میں معاشرتی موحول ایک مؤثرقوت کے طور پر کام آتا ہے۔ چناں چہ کسی ادیب یا اس کے ادب کو سمجھنے کے لیے ضروری ٹھہرا کہ اس کے معاشرتی ماحول کو سمجھا جائے۔عمرانی تنقید ادب کی سرپرستی کرنے والے اداروں کا مطالعہ ہے کیوں کہ یہ ادارے ادب کے موضوعات اور طرز بیان دونوں پر اثرانداز ہوتے ہیں۔اردو تنقید کا عمرانی دبستان۔ضیاالحسن مقالہ پی ایچ ڈی ۔۔۔۔۔ اردو کے ادبی نقاد اور عمرانیات دان احمد سہیل کا موقف ہ ہے " اردو ادبیات کے انتقادی مطالعوں " ادبی عمرانیاتی انتقادات" پر کچھ زیادہ نہیں لکھا گیا۔ جو کچھ بھی لکھا گیا وہ ایک "کچے زہن" کی " بٹر " ہے۔ ترقی پسندوں نے اس پر لکھنے کی کوشش کی مگر ان کی سکہ بند آئیڈیالوجی کی تحدیدات نے " عمرانیاتی ادبی تنقیدی نظریے پر وہ کھل کر نہیں لکھ سکے۔کیونکہ " عمرانیات" کھلے زہن کا علم ہے۔ جس کی بنایاد سائنسیی جوعیت کی ہوتی ہے اور اس سے ہی اس کی جمالیات خلق ہوتی ہے۔ اس میں " ہوا" میں باتیں نہیں ہوتی۔ اس میں عقل اور منطقی کی نتائجت کی فکری روشنی میں مرکوز متنی مطالعہ کرتی ہے۔ جس میں داستان گوئی نہیں ہوتی اور نہ ہی قصہ خوانی ہوتی ہے ۔ جدیدیت عمرانیاتی ادبی نظریے سے اس لیے دور سے بھاگتی ہے کہ اس میں انھیں یساریت پسندی یا کمیونزم کی " بو" آتی ہے۔ مابعد جدید یت اس کے قریب آتے آتے اس لیے اس سے اس لیے دور بھاگ گئی کیونکہ وہ کلی معاشرے اور ثقافت کی کیفیت سے انکار کرتی ہے اور اس میں معاشروں کی کیا سیاسی نوعیت کی" بازارکاری" کی سامراجیت چھپی ہوئی ہے۔ عمرانیاتی ادب اور نقد کی شروعات فرانسیسی ادیب، تاریخ دان اور ماہر عمرانایت " طین{ 1828- 1893 } سے ہوئی۔ انحوں نے پہلی بار تہزیب اور تاریخ کی پس منطر میں تنقید کی شروعات کی ۔ اور ادبی تنقید کے تاریخی مکتب فکر کے حوالے سے وہ ادبی عمرانیات کے بنیاد گزار قرار پائے۔ مادام دی اسٹیل {1766۔ 1817} ، ہرڈر {1744۔ 1803 }، گولڈ مین اور لوکاش نے عمرانیاتی اور ساختیاتی حوالے سے مفید نظریات کا اضافہ کیا ہے۔ اردو میں ادبی عمرانیات پر محمد حسن کی دو کتابیں ہیں۔ ان کی ایک نصابی کتابیں۔۔" ادبی سماجیات"{1983، دہلی} ، " اردو ادب کی سماجیاتی تاریخ" {1998، دہلی}اور محمد ضیا الرحمن کی کتاب " " مثنوی سحرالبیان کی سماجیات" { 1986، دہلی}نے عمرانیاتی ادبیات پر یہ بنیادی کتابیں لکھی۔ ان کتابوں کو اردو میں زیادہ قبولیت نہیں ملی اور اس موضوع پر کوئی بات نہیں کرتا۔