صہیب رومی
صہیب الرومی یا صہیب بن سنان الرومی صحابی ہیں۔
آپ کا نام ابویحییٰ صُہَیْب بن سِنان رومی رضیَ اللہ عنہ تھا۔ آپ رضیَ اللہ عنہ کے والد یا چچّا ایران کے بادشاہ کی طرف سے اُبُلّہ پر حاکم تھے، جبکہ آپ کا گھر مَوصِل کے قریب نہر فُرات کے کنارے ایک بستی میں تھا ایک دن رُومیوں نے حملہ کر کے قتل و غارت گری کا بازار گرم کیا اور کئی لوگوں کے ساتھ آپ کو بھی قیدی بنا کر روم لے گئے اس وقت آپ کم عمر تھے اس طرح آپ کی پرورش روم میں ہوئی۔ قبیلۂ بنو کلب کے ایک شخص نے آپ کو رومیوں سے خریدا اور مکّے لے آیا، پھر عبداللہ بن جُدعان نے آپ کو خرید لیا یہاں تک کہ آزادی کی دولت نصیب ہو گئی، بعض روایات کے مطابق بالغ ہونے کے بعد آپ شام سے بھاگ کر مکّہ آگئے تھے۔ آپ رضیَ اللہ عنہ نے ابتداً مکّہ میں رہائش رکھی اور تجارت کا پیشہ اپنایا جس سے کافی مال کمالیا تھا۔
آپ اور حضرت عمّار بن یاسر رضیَ اللہ عنہُ نے ایک ساتھ بارگاہِ رسالت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسَلَّم میں حاضر ہوکر اسلام قبول کیا تھا، اس وقت 30 سے کچھ زائد خوش نصیب دامنِ اسلام سے وابستہ ہو چکے تھے۔ آپ ان سات افراد میں شامل ہیں جنھوں نے سب سے پہلے اپنا اسلام ظاہر کیا۔
نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسَلَّم نے فرمایا حوضِ کوثر پر سب سے پہلے جسے سیراب کیا جائے گا وہ صُہیب ہیں۔ تم صہیب سے مَحبّت کرو جس طرح ماں اپنے بچّے سے مَحبّت کرتی ہے۔ بارگاہِ رسالت سے آپ کو دو گھر اور ایک حجرہ عطا ہوئے تھے۔
آپ رضیَ اللہ عنہ کی رنگت گہری سرخ تھی، قد مبارَک درمیانہ سے کچھ کم تھا، سر کے بال گھنے تھے۔ آپ رضیَ اللہ عنہ سخی اور نرم دل تھے۔ راہِ خدا میں اپنا مال خرچ کرتے، جہاد کرتے، لوگوں کو بَکثرت کھانا کھلاتے، نفس کی مخالَفت کرتے تھے، علم و فضل والے اور اللہ پاک اور رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسَلَّم کے احکامات کو بجا لانے میں جلدی کرنے والے تھے۔ آپ رضیَ اللہ عنہ تقویٰ و پرہیز گاری اور حسنِ اَخلاق کے زیور سے آراستہ ہونے کے ساتھ ساتھ خوش مزاج بھی تھے۔
ایک مرتبہ حضرت سیّدُنا صُہیب رضیَ اللہ عنہ کی آنکھ دُکھ رہی تھی اور وه کھجور كھا رہے تھے، پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسَلَّم نے ارشاد فرمایا: تمھاری آنکھ دُکھ رہی ہے اور تم کھجور کھا رہے ہو؟ عرض کی: میں دوسری طرف سے کھا رہا ہوں، یہ سُن کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسکرا دیے۔
آپ رضیَ اللہ عنہ تمام غزوات میں رحمتِ عالَم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبتِ بابرکت سے فیض پاتے رہے ،آپ فرماتے ہیں: تاجدارِ رسالت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسَلَّم جہاں بھی تشریف لے جاتے میں وہاں ضرور حاضر ہوتا،جب بھی کوئی بیعت لیتے میں اس میں ضرور شریک ہوتا۔جذبہ ٔ جانثاری مزید فرماتے ہیں: سیّدِ عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسَلَّم نے جو بھی لشکر جنگ کے لیے روانہ فرمایا میں اس میں شریک رہا اور جس جنگ میں مصطفےٰ کریم صلَّی اللہ علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم بنفسِ نفیس شریک ہوتے، میں ساتھ ساتھ رہتا۔ اگر جانِ عالَم صلَّی اللہ علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم کے سامنے کی طرف سے حملے کا اندیشہ ہوتا تَو سا منے آ جاتا، اگر پیچھے سے خطرہ ہوتا تَو پیچھے آجاتا، میں نے کبھی بھی حضور نبی رحمت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسَلَّم کو اپنے اور دشمنوں کے درمیان تنہا نہیں چھوڑا۔
آپ فتحِ شام کے موقَع پر امیرُ المؤمنین حضرت سیّدُنا عمرفاروق رضیَ اللہ عنہ کے ساتھ شام تشریف لائے تھے۔ مسجدِ نَبَوی میں امامت کی سعادت جب حضرت سیّدُنا عمر فاروق رضیَ اللہ عنہ قاتلانہ حملے میں شدید زخمی ہوئے تو انھوں نے حضرت صُہیب رومی۔کو نمازیں پڑھا نے کا حکم دیا آپ رضیَ اللہ عنہ تین دن تک حضرت عمر فاروق رضیَ اللہ عنہ کی جگہ نمازیں پڑھا تے رہے یہاں تک کہ مسلمانوں نے حضرت سیّدُنا عثمانِ غنی رضیَ اللہ عنہ کو خلافت کی اہم ذمّہ داری سونپ دی۔ حضرت عمر فاروق رضیَ اللہ عنہ کو قبر مبارَک میں اتارنے کی سعادت پانے والے چار صحابۂ کرام میں آپ بھی شامل تھے۔
آپ رضیَ اللہ عنہ کی وفات 38 ہجری ماہِ شوّال میں ہوا، نمازِ جنازہ حضرت سیّدُنا سعد بن ابی وقّاص رضیَ اللہ عنہ نے پڑھائی جبکہ تدفین جنّتُ البقیع میں ہوئی، بَوقتِ انتقال آپ کی عُمْر مختلف روایات کے مطابق 72 یا 74 سال تھی۔