اہل قرآن شیعہ
اہل قرآن شیعہ ،قرآنیون،جریان قرآنیان شیعہ یا قرآنیان ان ایرانی شیعوں کو کہا جاتا ہے جو اصلاح شیعت کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ اگرچہ تاریختلقللفقفونع
علرلقب
ظخخسزسزؤخثم شیعت میں یہ احتمال ظاہر کیا جاتا ہے کہ بہت سارے لوگ موجود رہے ہیں جو صرف قرآن کی حاکمیت کے قائل تھے تاہم رسمی علما کی مخالفت اور ان سے خوف کی وجہ سے تقیہ کرتے رہے۔ ایسا کہنا چاہیے کہ سید جمال الدین اسد آبادی وہ پہلے شخص تھے جنھوں نے اصل دین کی طرف واپسی کی تحریک چلائی اور فرماتے تھے : "ملت اسلامی کی بیماریوں کا واحد علاج یہ ہے کہ وہ خود کو صدر اول کے مسلمانوں کی طرح دین کے اصل قواعد کی طرف لوٹائیں۔ "
اہل تشیع میں اصلاح یا روشنفکری اور تجدد دینی کا آغاز بدعات اور خرافات کے مقابلہ سے شروع ہوا اور یہ مشروطہ ایران کے ساتھ نشو و نما ہوتی گئی۔ چنانچہ رئج عقائد میں تجدد گرائی یا نظرثانی کرنے والے علما سید جمال الدین افغانی،اسد اللہ خرقانی ، آیت اللہ محمد حسن شریعت سنگلچی،شیخ محمد خالصی زادہ،حیدر علی قلمداران،ابوالفضل برقعی،سید صادق تقوی،یوسف شعار،سید محمد جواد غروی،سید علی اصغر غروی،محسن کدیور،علی اکبر حکمی زادہ،سید جلال جلالی قوچانی،انجینر حسین برازندہ،خسروبشارتی،عبدالوہاب فرید تنکابنی،مہدی بازرگان عبد العلی بازرگان شامل ہیں۔
آیت اللہ شریعت سنگلجی کے مایہ ناز شاگرد علی اکبر حکمی زادہ کی طوفان برپا کرنے والی کتاب "اسرار ہزارسالہ" سے میں اہل قرآن شیعہ کے نظریہ کو ہی بیان کیا گیا ہے۔ اسرار ہزار سالہ جس کا جواب آیت اللہ خمینی نے " کشف الاسرار" کے نام سے اور آیت اللہ خالصی زادہ نے بھی جواب لکھا،علی اکبر حکمی زادہ جو آیت اللہ طالقانی کے بھانجے ہیں لکھتے ہیں :
"آج ہمارے(شیعہ اثناعشری کے ) پاس جو دین ہے وہ 95 فیصد گمراہی اور ضلالت پر مشتمل ہے۔"
جب کہ سیداحمد کسروی اپنی کتاب "شیعہ گری" میں لکھتے ہیں :
"اسلام دو ہیں۔ایک حقیقی اسلام جو محمد مصطفی ص لے کر آئے اور آپ کی وفات تک جو اسلام رائج رہا وہی حقیقی اسلام ہے۔ جب کہ دوسرا اسلام وہ ہے جو رسول ص کی وفات کے بعد سے آج تک جو رائج(فرقوں کا) اسلام ہے وہ خرافاتی اسلام ہے "